عربی مخطوطات کی تحقیق کا منہج

ترجمہ: ”المنھج الأمثل لتحقیق المخطوطات“

 

از: مولانا محمد یاسر عبداللہ                         

خادم طلبہ جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤن کراچی   

 

”ڈاکٹر حاتم صالح ضامن (۱۹۳۸/ تا ۲۰۱۳/) ماضی قریب میں عالم اسلام کے معروف محقق ومصنف، علوم قرآن وقراء ت سے وابستگی رکھنے والے لائق وفائق اسکالر گزرے ہیں۔ مخطوطات کی تحقیق‘ شیخ کا امتیازی وصف تھا، شیخ نے اس فن کو اپنی کاوشوں سے معیاری اسلوب فراہم کیا ہے، جس نے اس میدان میں عراقی محققین کو ممتاز مقام عطاکیا ہے۔ شیخ نے اس اسلوب پر محققین کی ایک پوری جماعت تیار کی ہے۔”المنھج الأمثل لتحقیق المخطوطات“ کے نام سے اس مقالے میں اختصار کے ساتھ شیخ نے اپنے منہجِ تحقیق کی وضاحت کی ہے، جس سے ان کے اسلوب کی امتیازی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ تحقیق وتالیف سے وابستہ اُردودان طبقے کے افادہ کے لیے اس مقالے کو اردو قالب میں ڈھال کر پیش کیا جارہا ہے۔“ (مترجم)

مخطوطات، امت کے علمی ترکے کا جزء اور اس کے تہذیبی و قومی وجود کی اہم دستاویزات ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت نے مخطوطات کی حفاظت کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں گوناگوں راہیں نکالی ہیں۔

تحقیقِ مخطوطات کے پہلو سے ہم آج جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، ہمارے قدیم علماء ان میں بہت سے مسائل کا حل پیش کرچکے ہیں، مثلاً:

نسخوں کا تقابل، اغلاط کی اصلاح، حذف وسقط اور زیادتی واضافے کا حل، ایک جیسے حروف کو ممتاز کرنا، حواشی لکھنا، علاماتِ ترقیم اور رموز واختصارات، مصادر ومآخذ کا ذکر وغیرہ۔

 مستشرقین کو ہمارے علمی ترکے کی نشرواشاعت میں سبقت حاصل ہے، انھوں نے (اپنے تئیں)تحقیقِ مخطوطات کا منہج ترتیب دے کر اسی کے مطابق کام کیا ہے۔ عربوں نے بھی تحقیقِ نصوص کا آغاز کیا تو بہت سی نفیس کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ نیزیونیورسٹیوں کی جانب سے اعلیٰ ڈگریوں کے حصول کے لیے تحقیقِ تراث کا دَر وا ہونے کے بعدتو یہ رجحان زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ بغداد یونیورسٹی کے ”کلیة الآداب“ میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ”تحقیقِ نصوص“ کا موضوع داخلِ نصاب کرنے کا شرف مجھے حاصل ہے، جو نظری اور عملی دونوں پہلووٴں سے پڑھایا جارہا ہے۔

عراقی محققین کے اسلوبِ تحقیق کی خصوصیات

گزشتہ ربع صدی سے متقدمین اور متأخرین علماء کے مناہج سے واقفیت کی روشنی میں،میں کہہ سکتا ہوں کہ دیگر ممالک کی بہ نسبت ہماری تحقیقات منفرد خصوصیات کی حامل ہیں، جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

۱- تخریج کے مصادر و مآخذ میں زمانی تسلسل کی رعایت

 اس لیے کہ متقدمین کو فضیلت حاصل ہے اور متأخرین بھی اخبار میں انھیں پر اعتماد کرتے ہیں۔

ایک معروف محقق کی کتاب نظر سے گزری، جس میں ایک شعر کی تخریج میں یوں لکھاتھا:

”خزانة الأدب، الأغانی، طبقات فحول الشعراء“

محقق موصوف نے زمانی ترتیب کی رعایت نہیں رکھی تھی، انھیں یوں تخریج کرنی چاہیے تھی:

”طبقات فحول الشعراء، الأغانی، خزانة الأدب“

(زمانی تسلسل کا لحاظ اس بنا پر ضروری ہے) کہ ابن سلام کی وفات ۲۳۲ھ میں، ابوالفرج اصفہانی کی ۳۶۲ھ میں اور عبدالقادر بغدادی کا وصال ۱۰۹۳ھ میں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تحقیقات میں مصادر کا ذکر کرتے ہوئے ہر مصنف کے سنِ وفات کا بالتزام تذکرہ کیا ہے اور اپنے طلبہ پر بھی اُسے لازم قرار دیا ہے۔

۲- اشعار و ارجاز کی تخریج میں محقق مطبوعہ دواوین یا مجموعوں پر اکتفا

اور اختلافِ روایت کی صورت میں اس کی طرف اشارہ

واضح بات ہے کہ ان تمام مصادر کا ذکر کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہیں جن میں وہ شعر آیا ہے، وہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان کا احاطہ بھی ناممکن ہے۔

    ہمارے بہت سے محقق بھائیوں نے اس نکتے سے اختلاف کیا ہے؛ لیکن ہم نے اسی اندا ز کا التزام کیا ہے اور ہم اس سے ہرگز پیچھے نہ ہٹیں گے۔ ہمارے شیخ معتمد محقق محمود محمد شاکر (م:۱۴۱۸ھ- ۱۹۹۷/) نے ایک نجی خط میں اس منہج کو پسندیدہ قرار دیتے ہوئے ان لو گوں کو ” جاہل محققین“ سے موصوف کیا ہے جو (بلاسبب)زیادہ تخریج کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک چھوٹے سے رسالے میں مذکور ایک شعر کی طرف اشارہ بھی کیا، جہاں محقق نے ستر کتابوں سے شعرکی تخریج کرڈالی تھی؛ حالانکہ شیخ نے لکھا ہے کہ ”والبیت فی دیوانہ“ وہ شعر خود شاعر کے دیوان میں موجود ہے۔ اس کتاب اور محقق کا نام ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے۔

۳- تراجم کے لیے قدیم اور مخصوص مصادر کی جانب رجوع

    بعض لوگ محض خیرالدین زرکلی (م: ۱۹۷۶/) کی ”الأعلام“ یا عمر رضا کحالہ (م:۱۴۰۸ھ) کی”معجم الموٴلفین“ کی طرف اشارے پر اکتفا کرتے ہیں، سہولت پسند محققین کا یہی منہج ہے۔ ایک اور قسم کے محققین الل ٹپ کبھی”الأعلام“ کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کبھی”کشف الظنون“ کی جانب، کبھی ”میزان الاعتدال“ کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی”خزانة الأدب“ کا، یہ انداز درست نہیں۔

ہمارا منہج جو ہمارے خیال میں منفرد منہج ہے، درجِ ذیل ہے:

تراجمِ صحابہ کے لیے ان کتابوں کی مراجعت جو مستقل طور پر ان کے تراجم کے لیے لکھی گئی ہیں، مثلاً:

(۱) ” معجم الصحابة “: ابن قانع (م:۳۵۱ھ)

(۲)” معرفة الصحابة“: ابو نعیم اصفہانی (م: ۴۳۰ھ)

(۳)”الاستیعاب“:ابن عبدالبر (م: ۴۶۳ھ)

(۴)”أسد الغابة“:ابن اثیر (م:۶۳۰ھ)

(۵)”الإصابة“:ابن حجر (م :۸۵۲ھ)

مفسرین کے حالات کے لیے ان کے تراجم کے ساتھ خاص کتب کی طرف رجوع، مثلاً:

(۱) ”طبقات المفسرین“: سیوطی (م:۹۱۱ھ)

(۲)” طبقات المفسرین“: داودی (م: ۹۴۵ھ)

(۳)” طبقات المفسرین“: (ادنہ وی)

محدثین اور راویانِ حدیث کے تراجم کے لیے ان کے حالات کے ساتھ خاص کتب کی مراجعت، جو الحمدللہ بہت ہیں، بہ طور مثال بلاحصر ملاحظہ فرمائیے:

(۱) ”التاریخ الکبیر“:امام بخاری (م:۲۵۶ھ)

(۲)”تہذیب الکمال“:مزی (م: ۷۴۲ھ)

(۴)” تہذیب التہذیب“: ابن حجر عسقلانی (م: ۸۵۲ھ)

محدثین میں سے ضعفا کے لیے کتبِ ضعفا کی جانب رجوع، مثلاً:

(۱) ”کتاب الضعفاء“:بخاری (م:۲۵۶ھ)

(۲)” کتاب الضعفاء“: نسائی (م: ۳۰۳ھ)

(۳)” کتاب الضعفاء“: دارقطنی (م: ۳۸۵ھ

(۴)”کتاب الضعفاء“: ذہبی (م: ۷۴۸ھ)

اسی طرح مجروح راویوں سے متعلق کتابیں، جیسے: ”المجروحین“ ابن حبان (م:۳۵۴ھ) وغیرہ۔

مذاہبِ اربعہ کے فقہاء کے حالات کے لیے شافعیہ، حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے طبقات کے ساتھ خاص کتب کی مراجعت، جو بحمداللہ بہت سی ہیں۔

شیعہ علماء ورجال کے لیے ان کے ساتھ خاص کتابوں کی طرف رجوع، جیسے کشی (م:۳۴۰ھ)، نجاشی(م:۴۵۰ھ) اور طوسی(م: ۴۶۰ھ) کی شیعہ رجال کے متعلق کتابیں، اور ”روضات الجنات“ خوانساری (م:۱۳۱۳ھ)

قراء کے تراجم کے لیے ان کے متعلق کتب کی مراجعت، مثلاً:

    (۱)” معرفة القراء الکبار“: ذہبی (م:۷۴۸ھ)

    (۲)” غایة النہایة فی طبقات القراء“: ابن جزری (م: ۸۳۳ھ)جو اس باب میں سب سے وسیع تر کتاب ہے اور بہت سے قراء کے تراجم میں منفرد ہے۔

    اہلِ تصوف کے حالات کے لیے طبقات الصوفیة سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع، جیسے:

    (۱)” طبقات الصوفیة “: سلمی (م: ۴۱۲ھ)

    (۲)” طبقات الصوفیة“: ابن ملقن (م: ۸۰۴ھ)

    (۳)” لواقح الأنوار فی طبقات الأخیار“: شعرانی(م: ۹۷۳ھ)

    نحویوں اور لغویوں کے تراجم کے لیے ان کے حالات کے ساتھ خاص کتب کی مراجعت، جیسے:

    (۱)”مراتب النحویین“: ابو طیب لغوی (م: ۳۵۱ھ)

    (۲)”أخبار النحویین البصریین“: سیرافی ( م: ۳۶۸ھ)      

    (۳)”طبقات النحویین واللغویین“: ابوبکر زُبیدی (م: ۳۷۹ھ)

    (۴)”اِنباہ الرواة علٰی أنباء النحاة“: قفطی(م: ۶۴۶ھ)

    (۵)”بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین والنحاة“: سیوطی (م:۹۱۱ھ)

    شعراء کے تراجم کے لیے ان کے حالات پر لکھی گئی کتب کی جانب رجوع، جیسے:

    (۱)”طبقات فحول الشعراء“: ابن سلّام (م: ۲۳۱ھ)

    (۲)”طبقات الشعراء المحدثین“: ابن معتز (م: ۲۹۶ھ)

    (۳)”الموٴتلف والمختلف“ : آمدی( م: ۳۷۰ھ)

    (۴)”معجم الشعراء“ :مرزبانی(م: ۳۸۴ھ)

    (۵)”الأغانی“: ابوالفرج اصفہانی(م بعد: ۳۶۰ھ)

    نسب، کنیت اور لقب کی تحقیق کے لیے کتبِ انساب وکُنیٰ والقاب کی مراجعت، مثلاً:

    (۱)”المؤتلف والمختلف“: ابن حبیب(م: ۲۴۵ھ)

    (۲)”الکُنٰی والاسماء“: دُولابی( م :۳۱۰ھ)

    (۳)” جمھرة أنساب العرب“: ابن حزم( م: ۴۵۴ھ)

    (۴)” الإکمال“: ابن ماکولا (م: ۴۸۶ھ)

    (۵)”الأنساب“ : سمعانی (م: ۵۶۲ھ) وغیرہ۔

۴- زیرِ تحقیق کتاب میں کسی مقام کے ضبط یا معنی کے سمجھنے کے لیے

   اس پہلو سے خاص کتب کی طرف رجوع

چنانچہ کسی مشکل کلمہ کے معنی کے لیے معاجم عربیہ کی جانب مراجعت، جو بحمد اللہ بہت ہیں اور ہرطالب علم پر ان کے مناہج کی پہچان لازم ہے، ان میں سے بعض خلیل بن احمد (م:۱۷۵ھ) کی ”العین“ کی ترتیب کے مطابق ہیں، بعض جوہری(م :۳۹۳ھ) کی” الصحاح“ کے منہج کے موافق ہیں، بعض زمخشری(م :۵۳۸ھ) کی ”أساس البلاغة“کے طرز پر ہیں اور بعض منفردانداز کی حامل ہیں، جیسے: ابنِ دُرید (م:۳۲۱ھ) کی”جمھرة اللغة“، ابن فارس (م:۳۹۵ھ) کی” المجمل“ اور ”مقاییس اللغة“۔

قراء ات کی معرفت کے لیے کتبِ قراء ات کی مراجعت

 محقق کے لیے لازم ہے کہ وہ قراء اتِ سبعہ، قراء اتِ عشرہ اورقراء اتِ اربع عشرہ سے واقف ہو، اور اسے شاذ قراء توں کی معرفت بھی حاصل ہو؛ تاکہ قراء ات کے ساتھ خاص کتب کی طرف رجوع کرسکے، جیسے:

(۱) ” شواذ القراء ات“: ابن خالویہ (م: ۳۷۰ھ)

(۲)” المحتسب“: ابن جنی (م :۳۹۲ھ)

(۳)” شواذ القراء ات“: کرمانی (م بعد: ۵۶۳ھ)

(۴)” إعراب القراء ات الشواذ“: عُکبری (م: ۶۱۶ھ)

قرآنِ کریم کے کسی کلمہ کی وجوہ کی پہچان کے لیے ”کتبُ الوجوہ والنظائر فی القرآن الکریم“ کی جانب رجوع کیا جائے، مثلاً: مقاتل بن سلیمان اورہارون بن موسیٰ قاری (م ق:۱۷۰ھ) کی کتابیں، یحییٰ بن سلام (م: ۲۰۰ھ) کی ”التصاریف“، ا ور ابن جوزی (م:۵۹۷ھ) کی کتاب۔

قرآن کریم کے مشکل الفاظ کی معرفت کے لیے ”کتب ِغریب القرآن“ کی مراجعت کی جائے، مثلاً:یزیدی(م: ۲۳۷ھ)، ابن قتیبہ(م: ۲۷۶ھ)، ابن عزیر سجستانی(م: ۳۳۰ھ) اور راغب اصفہانی(م :۴۵۰ھ) کی کتب۔

قرآن کے کسی کلمہ کے اعراب کے لیے ”کتبِ اعراب القرآن“ کی جانب رجوع کیا جائے، جیسے: نحاس(م :۳۳۸ھ)، ابنِ خالویہ(م: ۳۷۰ھ)، مکی قیسی(م: ۴۳۷ھ)، عُکبری (م:۶۱۶ھ)، منتجب ہمذانی (م: ۶۴۳ھ) اور سمین حلبی (م :۷۵۶ھ) کی کتابیں۔

حدیث کی معرفت کے لیے کتبِ حدیث کی مراجعت کی جائے، مثلاً: سب سے پہلے ”صحیح البخاری“(م: ۲۵۶ھ)، پھر” صحیح مسلم“ (م: ۲۵۱ھ)، پھرامام ابن ماجہ(م:۲۷۵ھ)، امام ابوداؤد (م: ۲۷۵ھ)، امام ترمذی (م:۲۷۹ھ) اور امام نسائی (م:۳۰۳ھ) کی” کتبُ السنن“، اور دیگر کتبِ حدیث: ”موطا امام مالک “(م :۱۷۹ھ) اور ”مسند أحمد بن حنبل“ (م :۲۴۱ھ) وغیرہ۔

البتہ موضوع احادیث کے لیے جداگانہ ومستقل کتابیں ہیں، مثلاً:

(۱) ”الموضوعات “: ابن جوزی (م :۵۹۷ھ)، (۲) ”اللآلی المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة“: سیوطی (م ۹۱۱ھ)، (۳) ” الفوائد المجموعة فی الأحادیث الموضوعة “ شوکانی (م: ۱۲۵۰ھ)

احادیث وآثار کے کسی غریب کلمہ کی تحقیق کے لیے ”کتبِ غریبُ الحدیث“ کی طرف رجوع کیا جائے، جیسے : ابوعبید (م: ۲۲۴ھ)، ابن قتیبہ (م: ۲۷۶ھ)، حربی (م: ۲۸۵ھ) اور خطابی (م: ۳۸۸ھ) کی کتابیں،زمخشری (م :۵۳۸ھ) کی ”الفائق“ اورابن اثیر (م: ۶۰۶ھ) کی”النہایة فی غریب الحدیث والأثر“ ۔

نباتات کے متعلق کسی کلمے کی معرفت کے لیے کتبِ نباتات کو دیکھا جائے، مثلاً: اصمعی (م: ۲۱۶ھ) اور ابن قتیبہ دینوری (م: ۲۸۲ھ) کی کتابیں۔

اضداد میں سے کسی کلمہ کی پہچان کے لیے کتبِ اضداد کی مراجعت کی جائے جو دس کے قریب ہیں اور ان میں قدیم تر قطرب(م :۲۱۰ھ) کی کتاب ہے۔

مشترک لفظی کلمات کی تحقیق کے لیے اس باب کی کتب دیکھی جائیں، جیسے: ”ما اتفق لفظہ واختلف معناہ“ کے نام سے یزیدی (م: ۲۲۵ھ)، ابو عُمَیشل (م:۲۴۰ھ) اور ابن شَجَری (م:۵۴۲ھ) کی کتابیں۔

مترادف الفاظ کی تحقیق کے لیے اس قبیل کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے، جیسے: ”مااختلفت ألفاظہ واتفقت معانیہ“ کے نام سے اصمعی (م :۲۱۶ھ)، ابن سِکیت (م:۲۴۴ھ)، ہمذانی (م: ۳۲۰ھ)، قدامہ بن جعفر (م: ۳۳۷ھ) اور رُمانی (م: ۳۸۴ھ) کی کتابیں۔

کلماتِ ضادیہ یا ظائیہ کی معرفت کے لیے اس باب کی کتب کی مراجعت کی جائے، جو الحمدللہ بہت ہیں، ”کتب الضاد والظاء“ کے سلسلے کی تیرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

مذکر اور موٴنث کلمات کی پہچان کے لیے اس باب کی کتابیں دیکھی جائیں، ان میں سے تقریباً دس کتابیں چھپ چکی ہیں، جن میں سے قدیم تر فراء (م :۲۰۷ھ) کی کتاب ہے۔

مقصور وممدود الفاظ کی تحقیق کے لیے اس قبیل کی کتب کی طرف رجوع کیا جائے، جوابن دُرید (م :۳۲۱ھ) اور ابن مالک (م: ۶۷۲ھ) کی منظومات کے علاوہ بھی اُنیس ہیں۔

مثلثِ لغوی کلموں کی معرفت کے لیے اس بارے میں لکھی گئی کتابیں دیکھی جائیں، جو منظومات کے علاوہ سات ہیں، قدیم تر کتاب قطرب(م :۲۱۰ھ) کی ہے۔

مثنی کلمے کی پہچان کے لیے اس موضوع کی دو مطبوعہ کتابوں کی مراجعت کی جائے: ”المثنی“ ابو طیب لغوی (مص۳۵۱ھ) اور ”جنی الجنتین فی تمییز المثنتین“ محبی (م:۱۱۱۱ھ)

ایسے کلمات جن میں عوام غلطی کرجاتے ہیں، ان کی تحقیق کے لیے ” لحن العامة“ یعنی لغوی تصحیحات پر لکھی گئی کتب کی جانب رجوع کیا جائے، جن میں سے قدیم تر کسائی (م: ۱۸۹ھ) کی کتاب ہے، اور کل نو کتب طبع ہوچکی ہیں۔

 مصحف ومحرف کلمہ کی تحقیق کے لیے کتبِ تصحیف وتحریف دیکھی جائیں، مثلاً: ”التنبیہ علٰی حدوث التصحیف“ حمزہ اصبہانی (م: ۳۶۰ھ)، ”التنبیہ علی أغالیط الرواة“ علی بن حمزہ بصری (م: ۳۷۵ھ) اور ” شرح مایقع فیہ التصحیف والتحریف“ ابو احمد عسکری (م:۳۸۲ھ)۔

معرب کلمے کی پہچان کے لیے اس باب کی کتب کی مراجعت کی جائے، جیسے: ”المعرب“ جوالیقی (م:۵۴۰ھ)، ”شفاء الغلیل فیما فی کلام العرب من الدخیل“ شہاب الدین خفاجی (م:۱۰۶۹ھ) اور ” قصد السبیل فیما فی العربیة من الدخیل“ محبی (م:۱۱۱۱ھ)۔

انسان کی خلقت سے متعلق کسی بات کی معرفت کے لیے اس نوع کی کتابیں دیکھی جائیں، مثلاً: اصمعی (م: ۲۱۶ھ)، زجاج (م :۳۱۱ھ)، ثابت بن ابی ثابت اور اسکافی (م :۴۲۰ھ) کی کتب۔

ازمنہ اور انواء کی پہچان کے لیے اس باب کی کتب کی طرف رجوع کیا جائے، جیسے: فراء (م: ۲۰۷ھ)، قطرب (م بعد: ۲۱۰ھ)، ابن قتیبہ (م: ۲۷۶ھ)، مرزوقی (م: ۴۳۲۱ھ) اور ابن اجدابی (م قبل: ۴۷۰ھ) کی کتابیں۔

کسی جگہ کی تعیین یا کسی شہر کے نام کی تحقیق کے لیے درجِ ذیل کتابیں دیکھی جائیں: ”معجم مااستعجم“ بَکَری (م:: ۴۸۷ھ)، ”الأماکن“ حازمی (م :۵۸۴ھ)، ”معجم البلدان“ یاقوت (م: ۶۲۶ھ) اور ”الروض المعطار“ حمیری (م :۷۲۷ھ)۔

کسی ضرب المثل کی معرفت کے لیے کتبِ امثال کی طرف رجوع کیا جائے، میری معلومات کے مطابق اس موضوع پر سترہ کتابیں ہیں، قدیم تر کتاب مفضل ضبی (م قبل: ۱۷۸ھ) کی ہے۔

کسی نحوی مسئلے کی تحقیق کے لیے کتبِ ِنحو کی مراجعت کی جائے، جو الحمدللہ بہت ہیں۔

نحو کے کسی اختلافی مسئلے کے لیے اس موضوع میں تالیف کی گئی کتب دیکھی جائیں، جیسے: ”الانصاف فی مسائل الخلاف“ ابو برکات انباری (م :۵۷۷ھ)، ” التبیین عن مذاھب النحویین البصریین والکوفیین“ عکبری (م: ۶۱۶ھ) اور ”ائتلاف النصرة فی اختلاف نحاة الکوفة والبصرة“ شرجی زَبیدی (م: ۸۰۲ھ)۔

فنونِ بلاغت میں سے کسی فن کی معرفت کے لیے کتبِ بلاغت کی جانب رجوع کیا جائے، جو بحمداللہ بہت ہیں۔

اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کی پہچان کے لیے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی مراجعت کی جائے، مثلاً:” الفَرق بین الفِرَق“ عبدالقاہر بغدادی (م :۴۲۹ھ)، ” الفِصل فی المِلل والأھواء والنِحل“ ابن حزم اندلسی (م: ۴۵۶ھ) اور ”المِلل والنِحل“ شہرستانی (م:۵۴۸ھ)۔

۵- اقوال کی تخریج ان کے قائلین کی کتابوں سے ہو اگر وہ مطبوع ہوں،

 اور اگر وہ کتب ہم تک نہ پہنچی ہوں تو دیگر مصادر سے ان کی توثیق

اقوال اور نصوص کی ان کے قائلین کی کتب سے تخریج کو اہمیت دینے سے محقق کو عبارت کی توثیق اور ضبط میں مدد ملتی ہے، بہ طورِ مثال میں کہتا ہوں :

نیسان (جولائی)۱۹۷۳/ میں، میں نے دس نسخوں کو سامنے رکھ کر مکی بن ابو طالب (م:۴۳۷ھ) کی کتاب ”مشکل إعراب القرآن“ کی تحقیق مکمل کی، اس کتاب میں خلیل (م:۱۷۵ھ)، سیبویہ (م:۱۸۰ھ)، فراء (م: ۲۰۷ھ) اور مبرد (م: ۲۸۵ھ) کی کتب سے عبارات منقول ہیں‘ میں نے ان سب عبارتوں کی تخریج کی؛حالانکہ سیبویہ کی کتاب سے ان کے اور خلیل کے اقوال کی تخریج میں مجھے بہت مشقت جھیلنی پڑی؛ اس لیے کہ شیخ عُضیمہ کی فہرست ۱۹۷۵/ میں چھپی ہے، اسی طرح سیبویہ کی ”الکتاب“ پر عبدالسلام ہارون (م :۱۴۰۸ھ) کی فہرست بھی ۱۹۷۷ھ میں طبع ہوئی ہے۔ ان نقول کے تقابل کے دوران مکی کی کتاب میں کافی اضطراب ملا، وہ کبھی خلیل کے قول کو سیبویہ کی طرف اور کبھی سیبویہ کے قول کو خلیل کی جانب منسوب کردیتے ہیں۔ میں نے تحقیق کے دوران حواشی میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ڈیڑھ سال بعد دمشق سے ” مشکل إعرب القرآن“ چھپ کر سامنے آئی، کسی محقق نے اس کی اشاعت میں جلدبازی سے کام لیا تھا؛ چنانچہ موصوف نے سیبویہ اور خلیل کے چھیالیس اقوال کو یونہی (بلاتحقیق)چھوڑ دیا؛ حالانکہ وہ سیبویہ کی کتاب میں موجود ہیں، بنا بریں اضطراب یونہی بلااشارہ قائم رہا؛ اس لیے کہ خود محقق کو اس کا ادراک ہی نہ تھا۔ علمی تحقیق میں یہ چیز خلل کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح محقق نے مبرد کے ایسے چودہ اقوال کو بھی بلا تخریج چھوڑ دیا تھا جو ان کی کتاب ”المقتضب“ میں موجود ہیں، اسی طرح فراء کے چار اقوا ل کی تخریج بھی نہیں کی تھی؛ حالانکہ وہ ان کی کتاب ”معانی القرآن“ میں مذکور ہیں۔ایک بااعتماد محقق جواپنا کام عمدگی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہو، اس کے لیے اقوال کی تخریج میں صبر سے کام لینا نہایت ضروری ہے۔

۶-      حواشی کو بوجھل نہ کرنا اور عبارت کو درست صورت میں ضبط کر کے سامنے لانا

اپنے سے پہلی نسل کی تحقیقات سے واقفیت ہوئی تو عجیب وغریب چیزیں دکھائی دیں۔ ایک طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حالات دو صفحوں میں ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین صفحوں میں، مزید اسی پر قیاس کر لیجیے، اور ادھر کچھ شعراء کے حالات کئی صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، جن میں محقق‘شاعر کی شخصیت، اس کے اشعار کے فنون اور مثالوں سے بحث کررہا ہے۔ نیز موجودہ مطبوعہ کتب کے حواشی میں ایسی بہت سی عبارتیں ہیں، جو دیگر طبع شدہ کتابوں سے نقل کی گئی ہیں، یہ بلاضرورت حواشی کو بوجھل بنانا ہے۔ تحقیق، کتاب کی شرح کانام نہیں؛ بلکہ ہمیں اختصار کے ساتھ توثیق وتخریج، صحیح شکل میں عبارت کے ضبط، اور موٴلف کے مطابق سالم صورت میں نص کو سامنے لانے کی ضرورت ہے، ساتھ ساتھ محض التباس کا احتمال رکھنے والے الفاظ کی شرح ہو۔

۷-     تخریج اور حوالہ جات میں علمی تحقیق کے ساتھ طبع شدہ کتب پر

اعتماد اور دیگر طبعات سے بے اعتنائی

بے شمار کتابیں بلاتحقیق چھاپ دی جاتی ہیں اور ان میں بہت سی تصحیفات اور تحریفات رہ جاتی ہیں؛ لیکن جب وہی کتابیں علمی تحقیق کے ساتھ طبع ہوجائیں تو پھر(دورانِ تحقیق وتخریج)انہی پر اعتمادضروری ہے اور محقق کے لیے تحقیق شدہ ایڈیشنوں کے حاصل نہ ہونے کا بہانہ کوئی دلیل نہیں، لہٰذا شیخ محمود محمد شاکر (م: ۱۴۱۸ھ- ۱۹۹۷/) کی تحقیق کے ساتھ عبدالقاہر جرجانی (م: ۴۷۱ یا ۴۷۴ھ) کی ”دلائل الإعجاز“ اور ”أسرار البلاغة“ منظرِعام پر آنے کے بعد علمی پہلو سے ان دونوں کتابوں کے سابقہ ایدیشن ناقابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح قزاز (م: ۴۱۲ھ) کی کتاب ”مایجوز للشاعر فی الضرورة“ دوبار پہلے تیونس میں اور پھر اسکندریہ میں طبع ہوئی ہے؛ لیکن قاہرہ سے جو تیسرا طبع آیا تو اس نے پہلے دو کو گرادیا ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر ہمارے ہاں اگر طا لبِ علم علمی تحقیق کے ساتھ شائع شدہ طبعات پر اعتماد نہ کرے تو اس سے بازپرس کی جاتی ہے۔

۸-     علمی دیانت اور نص کا احترام

یہ ایک اہم قضیہ ہے جس کی بنا پر ہم بہت مشقت اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی تحقیقات سے سابقہ پڑتا ہے، جن کے ناشرین نے قلم کی باگ چھوڑ رکھی ہے، وہ نص میں من مانا تصرف کرتے ہوئے جیسے چاہیں تقدیم وتاخیر اور اضافہ وحذف کر تے ہیں۔ بعض تو اس حد تک تجاوز کرگئے ہیں کہ نہایت بودے دلائل کو بنیاد بناکر کتاب کا نام ہی بدل ڈالا، پھر اسی کتاب کو دوسرے نام سے چھاپ دیا۔ میں ایسے ناشر کو محقق نہیں کہتا، یہ علم کی بجائے تجارتی نفع کا خواہشمند ہے، تحقیق سے اسے کوئی سروکار نہیں، فإلی اللّٰہ المشتکیٰ!

مثلاً: دامغانی (م: ۴۷۸ھ) کی کتاب ”الوجوہ والنظائر فی القرآن الکریم“ کو عبدالعزیز سید الاہل نے چھاپا ہے، جس میں بہت سے ایسے اضافات ہیں جو اصل کتاب میں نہیں، موٴلف کی ترتیب کو بدل کر کتاب کا نام ”إصلاح الوجوہ والنظائر فی القرآن الکریم“ رکھ دیا ہے، چہ جائے کہ اس کی نسبت میں وہم ہو، یہ ایک ناقابلِ اعتبار طبع ہے، جسے وقعت نہیں دی جاسکتی۔

شیخ عرفان بن سلیم عشا حسونہ نے ”تہذیب معانی القرآن وإعرابہ“ چھاپی اور مقدمے میں لکھا: ” مجھے خیال آیا کہ میں اس کتاب سے زجاج کی ذکرکی گئی چیزیں حذف کردوں؛ تاکہ کتاب عیب دار عبارات سے خالی ہوجائے “۔ سبحان اللہ! کیا کہنے! یہ ناشر صاحب زجاج کی ترتیب پر معترض ہیں اور اس میں تبدیلی وحذف اس لیے چاہتے ہیں کہ اس کے دل میں یہ ”خیال“ آیا ہے، انھیں کیا خبر کہ علمی دیانت اور تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ کتاب کو مصنف کی ترتیب کے مطابق جوں کا توں پیش کیا جائے۔

 ایک اور عجیب وغریب مثال ملاحظہ ہو: کرمانی (م :۵۰۵ھ) کی کتاب ”البرھان فی متشابہ القرآن لما فیہ من الحجة والبیان“ کو عبدالقادر احمد عطا نے تین بار نہایت گھٹیا انداز میں چھاپا ہے، پہلی بار اس کا نام ”أسرار التکرار فی القرآن“ تھا، اور ناشر کا کہنا تھا کہ سہولت کی بنا پر اس نام کی جانب اس کا میلان ہوا ہے اور اس نے موٴلف کا رکھا ہوا نام اس لیے ترک کردیا ہے کہ لوگ متشابہ کے معنی سے ناواقف ہیں، یہ طبع تیونس کا تھا، پھر انھیں عیوب کے ساتھ دوبارہ ”البرھان فی توجیہ متشابہ القرآن لمافیہ من الحجة والبیان“ کے نام سے دوسرا ایڈیشن شائع کیا، اور موٴلف کے رکھے ہوئے نام میں لفظِ”توجیہ“کا اضافہ کیا، یہ بیروتی طبع تھا۔تیسری بار مصر میں چھاپا تو ٹائٹل پر عنوان یوں تھا: ”أسرار التکرار فی القرآن المسمی البرھان فی توجیہ متشابہ القرآن لما فیہ من الحجة والبیان“۔ بخدا! یہ علم نہیں تجارت ہے اور اس غلط بیان ناشر نے اسی انداز سے کئی اور کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ اللہ اس سے درگزر کرے، اس نے علم اور اہلِ علم کے ساتھ برا سلوک کیا۔

بہرکیف، یہ ایک مشکل منہج ہے جس میں محقق کو بہت سے مصادر کی جانب مراجعت کرنا پڑتی ہے، جو بعض اوقات اس کی دسترس میں بھی نہیں ہوتے۔ ہم نے اپنے طلبہ کواعلیٰ تعلیم میں اسی منہج کا پابند کیا ہے؛ تاکہ وہ تحقیق پر قادر اور ہر باب کے مصادر سے آگاہ ہو کر نکلیں، وہ وسیع آفاق کے حامل ہوں، علمی ترکے میں جدید کی اتباع کریں، ان کے اور جدیدیات کے درمیان اس ربط سے تحقیق کی پختگی اور اس پر قدرت میں گہرا اثر ہوتا ہے۔

تحقیق کوئی آسان کام نہیں، جیسے نادان لوگ اس کا تصور پیش کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک مشکل اور تھکادینے والا عمل ہے، اپنی قابلِ قدر علمی میراث کے احیاء کی حرص ہی ہے جس نے ہمیں ان مشکلات پر غالب کر رکھا ہے۔ فالحمد للہ الذی ھدانا لھذا، و ماکنا لنھتدی لولا أن ھدانا اللہ !

ہمارے نزدیک یہ ایک بہترین منہج ہے، جس میں ہم نے بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا، بہت سے دشمن مقابلے میں آئے؛ لیکن الحمدللہ! تیس سال کے طویل عرصے سے ہم اسے پھیلانے میں کامیاب ہیں اور صرف عراق میں ہی نہیں؛ بلکہ تیونس میں اور الجزائر میں جہاں باتنہ، قسطنطنیہ اورعاصمہ میں تین ادارے کھل چکے ہیں اور ان کا نگران (سلف کے) علمی ترکے کا شیدائی ہمارا ہی ایک طالب علم ہے۔ آج ہم اس پُرامن شہر میں ہیں جس کے باسی خوش وخرم ہیں۔ امید ہے کہ ہم اپنے طلبہ وطالبات کو اس میراث کے احیاء کے لیے تیار کرنے میں کامیاب رہیں گے، جو ہماری گردنوں پر ایک امانت ہے۔ واللہ الموفق!

$ $ $

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد:100 ‏، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء